LEARN FORM THE ACTIVITES OF A KID,WHAT HE/SHE WANT
وہ گھنٹوں اپنے ہاتھوں اور انگلیوں سے کھیلتا رہتا ہے۔ کبھی اپنے پاؤں اٹھا کر پکڑے گا۔ کبھی آنکھیں‘ کبھی منہ کھولے گا اور بند کرے گا۔ کبھی پاؤں کا انگوٹھا چوسنے لگے گا۔ آپ سمجھیں گی کہ وہ بھوکا ہے۔ نہیں وہ بھوکا نہیں ہے وہ تو جستجو کررہا ہے کہ جسم کا یہ حصہ کیا محسوس کررہا ہے۔
ہوشیار! خبردار‘ ہمارے پیارے منے تشریف لاتے ہیں۔ محدود دنیا سے نکل کر وہ لامحدود دنیا میں آگئے ہیں۔ اب انہیں جن نئے نئے مسائل سے واسطہ پڑے گا ان میں سے دو مسائل زیادہ اہمیت رکھتے ہیں: اول یہ کہ اسے یہ کیونکر معلوم ہوگا کہ وہ بھی ایک فرد ہے‘ جسم رکھتا ہے‘ ذہن رکھتا ہے‘ اس کے بھی جذبات ہیں‘محسوسات ہیں؟دوم یہ کہ اسے کیونکر معلوم ہوگا کہ وہ ایک خاندان‘ ایک معاشرے کا فرد ہے‘ یعنی وہ اپنے والدین‘ بہن بھائیوں اور خاندان سے باہر دوسرے بچوں سے تعلقات کیونکر استوار کرے گا؟
بات یہ ہے کہ خودآگہی اور معاشرتی تعلق۔۔۔ یہ دو عمل ایسے ہیں جو کہ متوازی طور پر زندگی بھر اس کے ساتھ ساتھ رہیںگے۔ خودآگہی کا عمل ایک طویل عمل ہے جس کا آغاز بچے کی اس ’’دریافت‘‘ سے ہوتا ہے کہ وہ اپنے اعضائے جسم کو کس طرح کنٹرول کرے۔ وہ جب دو مہینے کا ہوجاتا ہے تو اپنے جسم کو دریافت کرنے کی حرکات شروع کردیتا ہے۔ وہ گھنٹوں اپنے ہاتھوں اور انگلیوں سے کھیلتا رہتا ہے۔ آپ سمجھیں گی کہ وہ بھوکا ہے۔ نہیں ۔۔۔وہ بھوکا نہیں ہے وہ تو جستجو کررہا ہے کہ جسم کا یہ حصہ کیا محسوس کررہا ہے۔
خود کو معاشرے کا ایک فرد محسوس کرتے وقت بچے کو اپنی صنف کا بھی احساس خودبخود ہوجاتا ہے کہ وہ لڑکا ہے یالڑکی۔۔۔ آپ اپنے بیٹے کو خواہ کتنی بھی گڑیاں لاکر دیں اور اپنی بیٹی کے سامنے موٹرکاریں رکھیں‘ لیکن وہ اپنی عمر کے پہلے سال ہی میں اتنا ’’باشعور‘‘ ہوجاتا ہے کہ لڑکی خودبخود گڑیوں کی طرف اور لڑکا موٹرکاروں کی طرف مائل ہوجائے گا۔ اس امتیاز میں کچھ کردار تو قدرت ادا کرتی ہے اور کچھ آپ کااپنا امتیازی سلوک بھی صنفی علیحدگی میں اپنا کام دکھاتا ہے۔ آپ غیرمحسوس طور پر ایسے اشارے جمع ہونے پر اس کی شخصیت کی تعمیر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جو بچہ والدین کے جتنا زیادہ قریب ہوگا وہ خود کو اتنا ہی زیادہ محفوظ محسوس کرے گا‘ اس کا خود کو پہچاننے کا عمل اتنا ہی تیز ہوگا۔ اس کی انفرادیت اتنی ہی زیادہ مستحکم ہوگی اور معاشرے سے اس کا تعلق اتنا ہی مستحکم ہوگا۔
دو ڈھائی ماہ کے بعد بچہ اپنے ہاتھ اور پاؤں کی شکل وصورت‘ ذائقے اور حرکات سے محظوظ ہونے لگتاہے۔ جسمانی اعضاء اسے بنے بنائے مل جاتے ہیں۔ ایسے کھلونے کہ جب آپ اس کے پاس نہ ہوں تو ان سے کھیلتا رہتا ہے۔ اس مرحلے پرجاننے کا عمل خودکار مشین کے عمل کی طرح کا ہوتا ہے۔ خودبخود پاؤں سکڑ کر اس کے منہ کے قریب آجاتے ہیں۔ خودبخود انگوٹھا اس کے منہ میں آجاتا ہے اور وہ رغبت سے چوسنے لگتا ہے۔ مہارت سے کوئی چیز پکڑنے یا گڈلیاں چلنے یا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں ابھی ایک سال اور لگے گا۔ زندگی کے پہلے سال میں ہونے والی پے بہ پے دریافتیں دراصل بچے کے ذہن پر اس کے اپنے جسم کا ایک عکس جمادیتی ہیں‘ ایک دھندلا سا نقش۔ جس طرح کا صاف اور پورا عکس آئینے میں نظر آتا ہے‘ وہ اس وقت بنے گا جب بچہ چیزوں کو دیکھنے‘ چکھنے‘ سونگھنے اور چھونے پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے کے بھی قابل ہوجائے گا۔ اس پورے عکس کو نفسیات کی اصطلاح میں تصور ذات (Self-concept) کہتے ہیں۔
بچے اور صحت مند قربت: تصور ذات حاصل کرنے میںبچے کو والدین کی صحت مند قربت سے بڑی مدد ملتی ہے۔اپنے جسم کو دریافت کرنا بچے کی ذہنی نشوونما کا ایک اہم حصہ ہے کیونکہ اس عمل سے ایک طرف اور رفتہ رفتہ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ دوسروں سے اپنے آپ کو الگ اور منفرد دیکھ سکے اور دوسری طرف اپنے اعمال اور حرکات پر قابو پاسکے اپنی انفرادیت‘ اپنی جنس‘ اپنی آزادی اور اپنی محتاجی کا احساس بچے کے اندر دوسروں کے میل جول ہی سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اپنے آپ کو جاننے سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ جستجو‘ کھوج اور دریافت کا جذبہ امر ربی ہے‘ اس کے اظہار و تعمیل میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اسی جذبے سے وہ اپنے جسم کے اعضا اور ان کی کارکردگی سے شناسا ہوتا ہے‘ اس لیے اگر وہ جسمانی اعضاء کو دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو خواہ والدین کو کتنی بھی پریشانی ہو‘ رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ بچے کو اپنے جسم کے ہر حصے کے بارے میں جاننے کی آزادی کی ضرورت ہے۔ ہر حصہ کیا کام انجام دیتا ہے‘ کس حصے کی بو سونگھنے میں کیسی ہے‘ ہونٹوںکاذائقہ‘ انگلیوں کے ذائقے سے کس طرح مختلف ہے۔ حواس خمسہ کے تجربات سے حاصل شدہ نتائج کی بنیاد پر وہ اپنی ذات یا شخصیت کا ایک نقشہ اپنے ذہن پر جمالیتا ہے۔ تصورذات کی بنیاد ہی پر اس میں اپنی انفرادیت کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔ انفرادیت کے احساس کی بنیاد پر اس میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اعتماد کی بنیاد پر وہ اپنے خاندان اور معاشرے سے تعلقات استوار کرتا ہے۔ اگر وہ مٹی سے کھیلتا ہے اور اسے منہ میں ڈالتا ہے تو آپ کی نظر میں یہ فعل ’’غلیظ‘‘ ہوگا‘ لیکن یہ اس کی دریافت و جستجو کے جذبے کا فطری مظاہرہ ہے۔
بچے کے ذہن میں اپنی ذات کا تصور بہت آہستہ آہستہ پیدا ہوتا ہے‘ بہت آہستہ… دراصل خود شناسی بچے اور معاشرے کے باہمی تعلقات کی پیداوار ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنی ذات اور اپنے ماحول کے درمیان تمیز نہیں کرسکتا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی شخصیت کی سرحدیں کہاں ختم ہوتی ہیں اورمعاشرتی ماحول کی سرحدیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں۔ ذرا بڑا ہونے کے بعد وہ اپنے والدین سے‘ اپنے بھائیوں سے‘ اپنے خاندان والوں سے‘ اپنے پڑوسیوں سے‘ اپنے ہم جولیوں سے تعلقات کا فرق محسوس کرنے لگے گا جبکہ بڑے بھی معاشرتی تعلقات کا احترام اور ادب آداب کرنا سکھائیں گے۔
اپنی جداگانہ شخصیت یا انفرادیت کا احساس بچے میں اپنے جسم کے ذریعے اور قریبی ماحول کی وساطت سے پیدا ہوتا ہے۔ پیدائش کے وقت بچے کی حرکات اور تمام افعال رضاکارانہ اور اضطراری ہوتے ہیں۔
رفتہ رفتہ بچے کا ذہن جبلت اور اس کے نتائج کے درمیان رابطہ پیدا کرنا سیکھ لیتا ہے۔ پھر تھوڑا سا آگے چل کر جب وہ مزید بڑھے گا تو وہ اپنی مرضی اور اپنے ارادے سے اپنے افعال کو کنٹرول کرنا سیکھ لے گا۔ شروع شروع میں وہ کسی چیز کی آواز کی طرف اپنا منہ پھیرلے گا‘ لیکن بڑا ہونے پر جب اس چیز کی مخصوص آواز کا نقش اس کے ذہن پر بیٹھ چکا ہوتا ہے تو وہ اس آواز کی طرف منہ نہیں پھیرتا بلکہ تصور باندھ لیتا ہے کہ یہ آواز اسی چیز کی ہوگی۔ اس کو آپ سیکھنے کا عمل کہہ سکتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ خودآگہی اور معاشرتی تعلق۔۔۔ یہ دو عمل ایسے ہیں جو کہ متوازی طور پر زندگی بھر اس کے ساتھ ساتھ رہیںگے۔ خودآگہی کا عمل ایک طویل عمل ہے جس کا آغاز بچے کی اس ’’دریافت‘‘ سے ہوتا ہے کہ وہ اپنے اعضائے جسم کو کس طرح کنٹرول کرے۔ وہ جب دو مہینے کا ہوجاتا ہے تو اپنے جسم کو دریافت کرنے کی حرکات شروع کردیتا ہے۔ وہ گھنٹوں اپنے ہاتھوں اور انگلیوں سے کھیلتا رہتا ہے۔ آپ سمجھیں گی کہ وہ بھوکا ہے۔ نہیں ۔۔۔وہ بھوکا نہیں ہے وہ تو جستجو کررہا ہے کہ جسم کا یہ حصہ کیا محسوس کررہا ہے۔
خود کو معاشرے کا ایک فرد محسوس کرتے وقت بچے کو اپنی صنف کا بھی احساس خودبخود ہوجاتا ہے کہ وہ لڑکا ہے یالڑکی۔۔۔ آپ اپنے بیٹے کو خواہ کتنی بھی گڑیاں لاکر دیں اور اپنی بیٹی کے سامنے موٹرکاریں رکھیں‘ لیکن وہ اپنی عمر کے پہلے سال ہی میں اتنا ’’باشعور‘‘ ہوجاتا ہے کہ لڑکی خودبخود گڑیوں کی طرف اور لڑکا موٹرکاروں کی طرف مائل ہوجائے گا۔ اس امتیاز میں کچھ کردار تو قدرت ادا کرتی ہے اور کچھ آپ کااپنا امتیازی سلوک بھی صنفی علیحدگی میں اپنا کام دکھاتا ہے۔ آپ غیرمحسوس طور پر ایسے اشارے جمع ہونے پر اس کی شخصیت کی تعمیر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جو بچہ والدین کے جتنا زیادہ قریب ہوگا وہ خود کو اتنا ہی زیادہ محفوظ محسوس کرے گا‘ اس کا خود کو پہچاننے کا عمل اتنا ہی تیز ہوگا۔ اس کی انفرادیت اتنی ہی زیادہ مستحکم ہوگی اور معاشرے سے اس کا تعلق اتنا ہی مستحکم ہوگا۔
دو ڈھائی ماہ کے بعد بچہ اپنے ہاتھ اور پاؤں کی شکل وصورت‘ ذائقے اور حرکات سے محظوظ ہونے لگتاہے۔ جسمانی اعضاء اسے بنے بنائے مل جاتے ہیں۔ ایسے کھلونے کہ جب آپ اس کے پاس نہ ہوں تو ان سے کھیلتا رہتا ہے۔ اس مرحلے پرجاننے کا عمل خودکار مشین کے عمل کی طرح کا ہوتا ہے۔ خودبخود پاؤں سکڑ کر اس کے منہ کے قریب آجاتے ہیں۔ خودبخود انگوٹھا اس کے منہ میں آجاتا ہے اور وہ رغبت سے چوسنے لگتا ہے۔ مہارت سے کوئی چیز پکڑنے یا گڈلیاں چلنے یا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں ابھی ایک سال اور لگے گا۔ زندگی کے پہلے سال میں ہونے والی پے بہ پے دریافتیں دراصل بچے کے ذہن پر اس کے اپنے جسم کا ایک عکس جمادیتی ہیں‘ ایک دھندلا سا نقش۔ جس طرح کا صاف اور پورا عکس آئینے میں نظر آتا ہے‘ وہ اس وقت بنے گا جب بچہ چیزوں کو دیکھنے‘ چکھنے‘ سونگھنے اور چھونے پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے کے بھی قابل ہوجائے گا۔ اس پورے عکس کو نفسیات کی اصطلاح میں تصور ذات (Self-concept) کہتے ہیں۔
بچے اور صحت مند قربت: تصور ذات حاصل کرنے میںبچے کو والدین کی صحت مند قربت سے بڑی مدد ملتی ہے۔اپنے جسم کو دریافت کرنا بچے کی ذہنی نشوونما کا ایک اہم حصہ ہے کیونکہ اس عمل سے ایک طرف اور رفتہ رفتہ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ دوسروں سے اپنے آپ کو الگ اور منفرد دیکھ سکے اور دوسری طرف اپنے اعمال اور حرکات پر قابو پاسکے اپنی انفرادیت‘ اپنی جنس‘ اپنی آزادی اور اپنی محتاجی کا احساس بچے کے اندر دوسروں کے میل جول ہی سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اپنے آپ کو جاننے سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ جستجو‘ کھوج اور دریافت کا جذبہ امر ربی ہے‘ اس کے اظہار و تعمیل میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اسی جذبے سے وہ اپنے جسم کے اعضا اور ان کی کارکردگی سے شناسا ہوتا ہے‘ اس لیے اگر وہ جسمانی اعضاء کو دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو خواہ والدین کو کتنی بھی پریشانی ہو‘ رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ بچے کو اپنے جسم کے ہر حصے کے بارے میں جاننے کی آزادی کی ضرورت ہے۔ ہر حصہ کیا کام انجام دیتا ہے‘ کس حصے کی بو سونگھنے میں کیسی ہے‘ ہونٹوںکاذائقہ‘ انگلیوں کے ذائقے سے کس طرح مختلف ہے۔ حواس خمسہ کے تجربات سے حاصل شدہ نتائج کی بنیاد پر وہ اپنی ذات یا شخصیت کا ایک نقشہ اپنے ذہن پر جمالیتا ہے۔ تصورذات کی بنیاد ہی پر اس میں اپنی انفرادیت کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔ انفرادیت کے احساس کی بنیاد پر اس میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اعتماد کی بنیاد پر وہ اپنے خاندان اور معاشرے سے تعلقات استوار کرتا ہے۔ اگر وہ مٹی سے کھیلتا ہے اور اسے منہ میں ڈالتا ہے تو آپ کی نظر میں یہ فعل ’’غلیظ‘‘ ہوگا‘ لیکن یہ اس کی دریافت و جستجو کے جذبے کا فطری مظاہرہ ہے۔
بچے کے ذہن میں اپنی ذات کا تصور بہت آہستہ آہستہ پیدا ہوتا ہے‘ بہت آہستہ… دراصل خود شناسی بچے اور معاشرے کے باہمی تعلقات کی پیداوار ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنی ذات اور اپنے ماحول کے درمیان تمیز نہیں کرسکتا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی شخصیت کی سرحدیں کہاں ختم ہوتی ہیں اورمعاشرتی ماحول کی سرحدیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں۔ ذرا بڑا ہونے کے بعد وہ اپنے والدین سے‘ اپنے بھائیوں سے‘ اپنے خاندان والوں سے‘ اپنے پڑوسیوں سے‘ اپنے ہم جولیوں سے تعلقات کا فرق محسوس کرنے لگے گا جبکہ بڑے بھی معاشرتی تعلقات کا احترام اور ادب آداب کرنا سکھائیں گے۔
اپنی جداگانہ شخصیت یا انفرادیت کا احساس بچے میں اپنے جسم کے ذریعے اور قریبی ماحول کی وساطت سے پیدا ہوتا ہے۔ پیدائش کے وقت بچے کی حرکات اور تمام افعال رضاکارانہ اور اضطراری ہوتے ہیں۔
رفتہ رفتہ بچے کا ذہن جبلت اور اس کے نتائج کے درمیان رابطہ پیدا کرنا سیکھ لیتا ہے۔ پھر تھوڑا سا آگے چل کر جب وہ مزید بڑھے گا تو وہ اپنی مرضی اور اپنے ارادے سے اپنے افعال کو کنٹرول کرنا سیکھ لے گا۔ شروع شروع میں وہ کسی چیز کی آواز کی طرف اپنا منہ پھیرلے گا‘ لیکن بڑا ہونے پر جب اس چیز کی مخصوص آواز کا نقش اس کے ذہن پر بیٹھ چکا ہوتا ہے تو وہ اس آواز کی طرف منہ نہیں پھیرتا بلکہ تصور باندھ لیتا ہے کہ یہ آواز اسی چیز کی ہوگی۔ اس کو آپ سیکھنے کا عمل کہہ سکتے ہیں۔
Comments