HAAL E DIL
حال دل | |
جو میں نے دیکھا‘ سنا اور سوچا
بیرون ملک کمانے کے راز
کل کی بات ہے۔۔۔ ایک صاحب جسمانی بیماریوں‘ دکھوں اور دردوں کا مجموعہ‘ کراہتے ہوئے میرے پاس آئے۔۔۔ نیچے نہیں بیٹھ سکتے تھے‘ کرسی پر بیٹھنے کو عرض کیا۔ آتے ہی کہنے لگے چھبیس سال سعودی عرب میں رہا ہوں۔ اب گردے فیل ہوگئے ہیں‘ دل کا مریض ہوں‘ چند قدم اٹھا نہیں سکتا‘ دماغ کام کرنا چھوڑ گیا ہے‘ طبیعت میں ہروقت توڑپھوڑ رہتی ہے‘ پورا جسم پانی سے بھرگیا ہے۔۔۔ زندگی سے لاچارہوں‘ چند لقمے نہیںکھا سکتا‘ ڈائیلائسز کرارہا ہوں‘ کیا آپ کے پاس میرا علاج ہے؟؟؟ میں پریشان ان کا منہ تک رہا تھا۔۔۔۔ اس طرح کی بے شماردیکھی گئیں درد بھری کہانیاں میرے سامنے اورمیرے دل و دماغ میں گردش کرنے لگیں۔۔۔ تیل والے ملک یعنی خلیج کے ممالک میں جتنے بھی لوگ۔۔۔ کوئی چار سال‘کوئی چوبیس سال‘ کوئی چونتیس سال۔۔۔ مجھے آج تک کوئی ایسا واپس آتا ہوا نہیں ملا جس کو یہ پانچ روگ نہ ہوں۔۔۔ پہلا :لاکھوں کمایا لیکن اسی کی زندگی میں ختم ہوگیا یا اس کے مرنے کے فوراً بعد۔۔۔ دوسرا: اولاد نافرمان‘ باغی اور تعلیمی اعتبار سے نامکمل رہ گئی۔۔۔ تیسرا: بیوی کے ناجائز تعلقات یا پھر وہ بیماریوں میں مبتلا‘ اس کے مزاج میں چڑچڑاپن اور انواع و اقسام کے عوارض و امراض میں وہ زندگی کے دن گن رہی تھی۔ چوتھا: خود شوگر‘ ہائی بلڈپریشر‘ ٹینشن‘ دل کے امراض‘ معدے کے امراض۔۔۔ الغرض طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوا۔ پانچواں: کسی کو کما کما کےسرمایہ دیا تھا یا تو اس نے پیسے ضائع کردئیے یا کھا کے بھاگ گیا‘ غبن ہوگیا‘ دھوکہ فریب فراڈ ہوگیا یا پھر خود اولاد نے ہی برباد کردیا۔یہ پانچ مسائل مجھے ان سب لوگوںمیں نظر آتے ہیں۔ کسی میں پانچ نہیں تو دو ہیں‘ کسی میں دو نہیں تو چار ہیں۔ ان مسائل کے مارے ہوئے لوگ جب میرے سامنے آتے ہیں دل دکھی ہوجاتا ہے۔ ایک دیہاتی آدمی سے میں اس کے احوال پوچھ رہا تھاکہنے لگا میں سترہ سال سے خلیج میں ہوں۔ اس نے بھی اپنے یہی مسائل بتائے۔ میں نے اس سے پوچھا :آپ کا کیا خیال ہے ایساکیوں ہوتا ہے؟ کہنے لگے :اس کی وجہ صرف ایک چیز مجھے سمجھ آتی ہے۔ جو حرم کے ایک بہت بڑے مفتی سے میں نے سنی تھی۔ انہوں نے بتایا تھا جو اپنی بیویوں کو سسکتا ہوا چھوڑ کر مال و دولت کی خاطر دوسرے ملکوں میں سالہا سال رہتے ہیں جہاں اپنی جانوں پر ظلم کی وجہ سے بیماریوں اور تکلیفوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔۔۔ وہاں وہ جو مال کماتے ہیں وہ شرعاً خود مشکوک ہوتا ہے۔ میںچونک پڑا۔۔۔۔وہ ان پڑھ شخص کہنے لگے کہ ہم تو خون پسینہ ایک کرکے پیسے کماتے ہیں وہ مشکوک کیسے ہوسکتا ہے؟؟؟ لیکن تھوری ہی دیر میں مجھے خود ان کا جواب تقریر میںسننے کو ملا وہ یہ تھا کہ وہ اولاد اور بیویوں کے حقوق ضائع کرکے جو مال کماتے ہیں وہ مال کبھی بھی حلال نہیں ہوسکتا اور بابرکت نہیں ہوسکتا۔۔۔ میں اس ان پڑھ شخص کی بات سن کر حیران ہوا کہ حرم کے بہت بڑے مفتی کی بات آخر غیر مستند تو نہیں ہوگی مزید تحقیق علماء ہی کرسکتے ہیں لیکن اس کے پیچھے جو دلیل انہوں نے دی ہے بیوی اور بچوں کو سسکتا ہوا چھوڑ کر جانے کی۔۔۔ وہ مجھے اس لیے سمجھ آرہی ہے کہ بعض حیاء دار اور پاکباز خواتین جو اپنے منہ سے مجھے حالات نہیں بتاسکتیں وہ آکر میرے ہاتھ میں ایک رقعہ پکڑا دیتی ہیں۔۔۔ جس سے ان کی زندگی کی چاہتوں اور خواہشات کا سلگتا پن رقعہ کے ساتھ ساتھ‘ ان کی آنکھوں سے برستا ساون بھادوں جب میں دیکھتا ہوں توبے ساختہ میرا ہاتھ ٹشو کے ڈبے کی طرف چلا جاتا ہے اورپھر وہ اپنی چاہتوں کا قتل لکھنے کے بعد اولاد کی کہانیاں بیان کرتی ہیں کہ اب بیٹے اور بیٹی نے اپنی راہوں کا انتخاب کرلیا ہے اور گھر سارا کا سارا ٹوٹ گیا ہے ان کی اپنی جوانی‘ چاہتوں میں ڈوب کر بڑھاپے کی نذر ہوگئی۔ وہ ایک علیحدہ روگ ہے اور یہ اولاد کا نیا غم۔۔۔۔ پرسوںمیرے پاس میاں بیوی آئے کہ میں سترہ سال سے جاپان میں ہوں چند سالوں کے بعد آتا ہوں کچھ ہفتے اپنے بیوی بچوں کےساتھ رہتا ہوں اور چلا جاتا ہوں۔ یہ لوگ قیامت کے دن رب کو کیا جواب دیں گے؟ اور پھر ان کی وجہ سے جو بے حیائی اور خاندانی زندگی میں توڑ پھوڑ ہوتی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ مجھے قارئین اس کاجواب بھی دیں اور اس طرح کی سلگتی کہانیاں لکھ کر بھی بھیجیں۔۔۔ کہیں میرا اندازہ غلط تو نہیں۔۔۔!!!
|
Comments